EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہر ایک شاخ پہ ویرانیاں مسلط ہیں
بدن درخت بھی گویا ہے آشیانۂ شب

ارشد جمال صارمؔ




اسی باعث میں اپنا نصف رکھتا ہوں اندھیرے میں
مرے اطراف بھی سورج کوئی گردش میں رہتا ہے

ارشد جمال صارمؔ




جانے کس رت میں کھلیں گے یہاں تعبیر کے پھول
سوچتا رہتا ہوں اب خواب اگاتا ہوا میں

ارشد جمال صارمؔ




ختم ہوتا ہی نہیں سلسلہ تنہائی کا
جانے کس درجہ مسافت میں ہے ڈھالی گئی شب

ارشد جمال صارمؔ




کس کی تنویر سے جل اٹھے بصیرت کے چراغ
کس کی تصویر یہ آنکھوں سے لگائی گئی ہے

ارشد جمال صارمؔ




کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
اک طرف جانے کا غم ہے اک طرف آنے کا دکھ

ارشد جمال صارمؔ




نہ جانے اس نے کھلے آسماں میں کیا دیکھا
پرندہ پھر سے جہان قفس میں لوٹ آیا

ارشد جمال صارمؔ