یہی انصاف ترے عہد میں ہے اے شہ حسن
واجب القتل محبت کے گنہ گار ہیں سب
ارشد علی خان قلق
یوں راہی عدم ہوئی با وصف عذر لنگ
محسوس آج تک نہ ہوئے نقش پائے شمع
ارشد علی خان قلق
یوں روح تھی عدم میں مری بہر تن اداس
غربت میں جس طرح ہو غریب الوطن اداس
ارشد علی خان قلق
زمین پاؤں کے نیچے سے سرکی جاتی ہے
ہمیں نہ چھیڑئیے ہم ہیں فلک ستائے ہوئے
ارشد علی خان قلق
ایسی ہی بے چہرگی چھائی ہوئی ہے شہر میں
آپ اپنا عکس ہوں میں آپ آئینہ ہوں میں
ارشد جمال صارمؔ
بس اتنا ربط کافی ہے مجھے اے بھولنے والے
تری سوئی ہوئی آنکھوں میں اکثر جاگتا ہوں میں
ارشد جمال صارمؔ
دیکھ اے میری زبوں حالی پہ ہنسنے والے
وقت کی دھوپ نے کس درجہ نکھارا مجھ کو
ارشد جمال صارمؔ

