EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہی انصاف ترے عہد میں ہے اے شہ حسن
واجب القتل محبت کے گنہ گار ہیں سب

ارشد علی خان قلق




یوں راہی عدم ہوئی با وصف عذر لنگ
محسوس آج تک نہ ہوئے نقش پائے شمع

ارشد علی خان قلق




یوں روح تھی عدم میں مری بہر تن اداس
غربت میں جس طرح ہو غریب الوطن اداس

ارشد علی خان قلق




زمین پاؤں کے نیچے سے سرکی جاتی ہے
ہمیں نہ چھیڑئیے ہم ہیں فلک ستائے ہوئے

ارشد علی خان قلق




ایسی ہی بے چہرگی چھائی ہوئی ہے شہر میں
آپ اپنا عکس ہوں میں آپ آئینہ ہوں میں

ارشد جمال صارمؔ




بس اتنا ربط کافی ہے مجھے اے بھولنے والے
تری سوئی ہوئی آنکھوں میں اکثر جاگتا ہوں میں

ارشد جمال صارمؔ




دیکھ اے میری زبوں حالی پہ ہنسنے والے
وقت کی دھوپ نے کس درجہ نکھارا مجھ کو

ارشد جمال صارمؔ