EN हिंदी
کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا | شیح شیری
kuchh to mil jae kahin dida-e-pur-nam ke siwa

غزل

کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا

ارشد کمال

;

کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا
آنکھ سے ٹپکے وہی گریۂ ماتم کے سوا

گلشن زیست میں موسم کا بدلنا کیا ہے
کاش رک جائے کوئی درد کے موسم کے سوا

صبح کا وقت ہے کرنوں کو بتا دے کوئی
خوش ہیں گلشن میں سبھی قطرۂ شبنم کے سوا

وہ زمانے کا تغیر ہو کہ موسم کا مزاج
بے ضرر دونوں ہیں نیرنگی آدم کے سوا

ایسے طوفاں کی ہے تمہید یہ موجودہ سکوت
کچھ نہ جب ہوگا یہاں شورش پیہم کے سوا