کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا
آنکھ سے ٹپکے وہی گریۂ ماتم کے سوا
گلشن زیست میں موسم کا بدلنا کیا ہے
کاش رک جائے کوئی درد کے موسم کے سوا
صبح کا وقت ہے کرنوں کو بتا دے کوئی
خوش ہیں گلشن میں سبھی قطرۂ شبنم کے سوا
وہ زمانے کا تغیر ہو کہ موسم کا مزاج
بے ضرر دونوں ہیں نیرنگی آدم کے سوا
ایسے طوفاں کی ہے تمہید یہ موجودہ سکوت
کچھ نہ جب ہوگا یہاں شورش پیہم کے سوا

غزل
کچھ تو مل جائے کہیں دیدۂ پر نم کے سوا
ارشد کمال