فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے
ایک بجھتی سی انگیٹھی کو ہوا دی جائے
کسی جنگل میں اگر ہو تو بجھا دی جائے
کیسے تن من میں لگی آگ دبا دی جائے
تلخی زیست کی شدت کا تقاضہ ہے یہی
ذہن و دل میں جو مسافت ہے گھٹا دی جائے
تیرگی شب کی بسی جائے ہے ہستی میں مری
صبح کو جا کے یہ روداد سنا دی جائے
عشق والوں کی فغاں ضبط فغاں ہوتی ہے
عاشق وقت کو یہ بات بتا دی جائے
خاک صحرا تو بہت دور ہے اے وحشت دل
کیوں نہ ذہنوں پہ جمی گرد اڑا دی جائے
وہ حقیقت جو نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے
کیسے آداب کے پردے میں چھپا دی جائے
غزل
فکر سوئی ہے سر شام جگا دی جائے
ارشد کمال