کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے
مرے اندر پرانا اک شناور جاگ اٹھتا ہے
نشیمن گیر ہیں طائر بھلا سمجھیں تو کیا سمجھیں
وہ کیفیت کہ جب شاہیں کا شہپر جاگ اٹھتا ہے
میں جب بھی کھینچتا ہوں ایک نقشہ روز روشن کا
نہ جانے کیسے اس میں شب کا منظر جاگ اٹھتا ہے
زمانہ گامزن ہے پھر انہی حالات کی جانب
بپھر کر جب ابابیلوں کا لشکر جاگ اٹھتا ہے
مرے احساس کی رگ سے الجھ پڑتا ہے جو لمحہ
اسی لمحے تڑپ کر اک سخن ور جاگ اٹھتا ہے
وہ تارے جو چمک رکھتے نہیں کچھ روز روشن میں
شب تاریک میں ان کا مقدر جاگ اٹھتا ہے
یہ مانا سیل اشک غم نہیں کچھ کم مگر ارشدؔ
ذرا اترا نہیں دریا کہ بنجر جاگ اٹھتا ہے
غزل
کبھی انگڑائی لے کر جب سمندر جاگ اٹھتا ہے
ارشد کمال