EN हिंदी
اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر | شیح شیری
ek lafz aa gaya tha jo meri zaban par

غزل

اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر

ارشد کمال

;

اک لفظ آ گیا تھا جو میری زبان پر
چھایا رہا نہ جانے وہ کس کس کے دھیان پر

مجھ کو تلاش کرتے ہو اوروں کے درمیاں
حیران ہو رہا ہوں تمہارے گمان پر

محفل میں دوستوں کی وہی نغمہ بن گیا
شب خون کا جو شور تھا میرے مکان پر

بے شک زمیں ہنوز ہے اپنے مدار میں
لیکن دماغ اس کا تو ہے آسمان پر

شاید مری تلاش میں اتری ہے چرخ سے
جو دھوپ پڑ رہی ہے مرے سائبان پر

رہتا ہے بے نیاز جو آب و سراب سے
کھلتا ہے راز دشت اسی ساربان پر

احساس اس کا جامۂ اظہار مانگے ہے
افتاد آ پڑی ہے یہ ارشدؔ کی جان پر