رقم کروں بھی تو کیسے میں داستان وفا
حروف پھرتے ہیں بیگانے میرے کاغذ سے
ارشد جمال صارمؔ
سپرد آب یوں ہی تو نہیں کرتا ہوں خاک اپنی
عجب مٹی کے گھلنے کا مزا بارش میں رہتا ہے
ارشد جمال صارمؔ
وہ اک لمحہ سزا کاٹی گئی تھی جس کی خاطر
وہ لمحہ تو ابھی ہم نے گزارہ ہی نہیں تھا
ارشد جمال صارمؔ
زندگی ہم سے تری آنکھ مچولی کب تک
اک نہ اک روز کسی موڑ پہ آ لیں گے تجھے
ارشد جمال صارمؔ
زندگی تو بھی ہمیں ویسے ہی اک روز گزار
جس طرح ہم تجھے برسوں سے گزارے ہوئے ہیں
ارشد جمال صارمؔ
جانے شب کو کیا سوجھی تھی رندوں کو سمجھانے آئے
صبح کو سارے مے کش ان کو مسجد تک پہنچانے آئے
ارشد کاکوی
بلا سبب تو کوئی برگ بھی نہیں ہلتا
تو اپنے آج پہ اثرات کل کے دیکھ ذرا
ارشد کمال

