کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے
مرا دل میرے پہلو میں پرایا ہو گیا ہے
وہ آئے تو لگا غم کا مداوا ہو گیا ہے
مگر یہ کیا کہ غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہے
سواد شب ترے صدقے کچھ ایسا ہو گیا ہے
بھنور بھی دیکھنے میں اب کنارا ہو گیا ہے
میں ان کی گفتگو سے عالم سکتہ میں گم تھا
وہ سمجھے ان کی باتوں سے دلاسہ ہو گیا ہے
کبھی موقع ملے تو گفتگو کر لوں خبر لوں
کہ خود سے ربط ٹوٹے ایک عرصہ ہو گیا ہے
کبھی ان کا نہیں آنا خبر کے ذیل میں تھا
مگر اب ان کا آنا ہی تماشا ہو گیا ہے
مجھے فرہاد و مجنوں آفریں کہتے ہیں ارشدؔ
کہ اب میرا بھی جینے کا ارادہ ہو گیا ہے

غزل
کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے
ارشد کمال