EN हिंदी
کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے | شیح شیری
kiya hai maine aisa kya ki aisa ho gaya hai

غزل

کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے

ارشد کمال

;

کیا ہے میں نے ایسا کیا کہ ایسا ہو گیا ہے
مرا دل میرے پہلو میں پرایا ہو گیا ہے

وہ آئے تو لگا غم کا مداوا ہو گیا ہے
مگر یہ کیا کہ غم کچھ اور گہرا ہو گیا ہے

سواد شب ترے صدقے کچھ ایسا ہو گیا ہے
بھنور بھی دیکھنے میں اب کنارا ہو گیا ہے

میں ان کی گفتگو سے عالم سکتہ میں گم تھا
وہ سمجھے ان کی باتوں سے دلاسہ ہو گیا ہے

کبھی موقع ملے تو گفتگو کر لوں خبر لوں
کہ خود سے ربط ٹوٹے ایک عرصہ ہو گیا ہے

کبھی ان کا نہیں آنا خبر کے ذیل میں تھا
مگر اب ان کا آنا ہی تماشا ہو گیا ہے

مجھے فرہاد و مجنوں آفریں کہتے ہیں ارشدؔ
کہ اب میرا بھی جینے کا ارادہ ہو گیا ہے