سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے
تری غرض نے محبت سے باندھ رکھا ہے
عجب کشش ہے ترے ہونے یا نہ ہونے میں
گماں نے مجھ کو حقیقت سے باندھ رکھا ہے
کبھی کبھی تو مجھے ٹوٹتا دکھائی دے
جو ایک عہد قیامت سے باندھ رکھا ہے
شہ جمال ترے شہر کے فقیروں کو
کمال ہجر نے وحشت سے باندھ رکھا ہے
بھٹک رہا ہوں میں غار طلسم کے اندر
کہ علم تو نے جہالت سے باندھ رکھا ہے
غزل
سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے
ارشد لطیف