EN हिंदी
سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے | شیح شیری
surur-e-ishq ne ulfat se bandh rakkha hai

غزل

سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے

ارشد لطیف

;

سرور عشق نے الفت سے باندھ رکھا ہے
تری غرض نے محبت سے باندھ رکھا ہے

عجب کشش ہے ترے ہونے یا نہ ہونے میں
گماں نے مجھ کو حقیقت سے باندھ رکھا ہے

کبھی کبھی تو مجھے ٹوٹتا دکھائی دے
جو ایک عہد قیامت سے باندھ رکھا ہے

شہ جمال ترے شہر کے فقیروں کو
کمال ہجر نے وحشت سے باندھ رکھا ہے

بھٹک رہا ہوں میں غار طلسم کے اندر
کہ علم تو نے جہالت سے باندھ رکھا ہے