EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

حصار غیر میں رہتا ہے یہ مکان وجود
میں خلوتوں میں بھی اکثر عذاب دیکھتا ہوں

ارشد محمود ناشاد




میں ترے شہر سے گزرا ہوں بگولے کی طرح
اپنی دنیا میں مگن اپنے خیالات میں گم

ارشد محمود ناشاد




تلاش لا مکاں میں اڑ رہا ہوں
مگر مجھ سے مکاں لپٹا ہوا ہے

ارشد محمود ناشاد




غروب شام تو دن بھر کے فاصلے پر ہے
کرن طلوع کی اتری ہے جگمگاتی پھرے

ارشد ملک




میں وسعتوں سے بچھڑ کے تنہا نہ جی سکوں گا
مجھے نہ روکو مجھے سمندر بلا رہا ہے

ارشد نعیم




شام ڈھلتے ہی دل کے آنگن سے
درد کا کارواں گزرتا ہے

ارشد نعیم




فضا ہے تیرہ و تاریک اور اس کا خیال
نہ جانے کون سی دنیا میں جا کے سویا ہے

ارشد صدیقی