EN हिंदी
کیوں خفا ہم سے ہو خطا کیا ہے | شیح شیری
kyun KHafa humse ho KHata kya hai

غزل

کیوں خفا ہم سے ہو خطا کیا ہے

انور سہارنپوری

;

کیوں خفا ہم سے ہو خطا کیا ہے
یہ تو فرمائیے ہوا کیا ہے

حسن کیا حسن کی ادا کیا ہے
اس کے جلووں کا دیکھنا کیا ہے

ایک عالم ہے صرف مے نوشی
نگہ مست ماجرا کیا ہے

نیچی نظروں سے کر دیا گھائل
اب یہ سمجھے کہ یہ حیا کیا ہے

جان دینا ہے عین مقصد عشق
ان کو اندازۂ وفا کیا ہے

ہم سے برہم رقیب سے شاداں
کہئے کہئے یہ ماجرا کیا ہے

جن کی ہستی ہے اک شرر کی مثال
ایسے تاروں کا ڈوبنا کیا ہے

عارض یار کے مقابل ہو
مہر تاباں کا حوصلا کیا ہے

خون عاشق ہے یا حنا کا رنگ
میرے قاتل یہ زیر پا کیا ہے

خود ہی گم ہو کے رہ گئے انورؔ
حاصل جستجو ہوا کیا ہے