جب فصل بہاراں آتی ہے شاداب گلستاں ہوتے ہیں
تکمیل جنوں بھی ہوتی ہے اور چاک گریباں ہوتے ہیں
پر کیف فضائیں چلتی ہیں مخمور گھٹائیں چھاتی ہیں
جب صحن چمن میں جلوہ نما وہ جان بہاراں ہوتے ہیں
ہوتا ہے سکون قلب و جگر ہر زخم میں لذت آتی ہے
او ناوک افگن تیر ترے تسکین رگ جاں ہوتے ہیں
کیوں منت چارہ گر کیجے کیوں فکر دوائے دل کیجے
بیمار محبت کے نالے خود درد کا درماں ہوتے ہیں
یہ عہد جوانی شوخئ گل دو دن کی بہاریں ہوتی ہیں
دیکھیں تو کبھی وہ رنگ خزاں جو حسن پہ نازاں ہوتے ہیں
جب باد بہاری آتی ہے ہر گل پہ جوانی چھاتی ہے
کھل جاتے ہیں مرے زخم جگر اور داغ درخشاں ہوتے ہیں
گرداب محافظ ہوتا ہے اے بحر حوادث بیکس کا
کھنچ آتا ہے ساحل موجوں میں جب جوش پہ طوفاں ہوتے ہیں
کیا مجھ کو ضرورت اے انورؔ کیوں ان کے ستم کا شاکی ہوں
جب یاد جفائیں آتی ہیں وہ خود ہی پشیماں ہوتے ہیں
غزل
جب فصل بہاراں آتی ہے شاداب گلستاں ہوتے ہیں
انور سہارنپوری