وہ پردے سے نکل کر سامنے جب بے حجاب آیا
جہان عشق میں یک بارگی اک انقلاب آیا
زمیں کے ذرہ ذرہ سے نمایاں ہو گئے جلوے
سر گلزار وہ رشک قمر جب بے حجاب آیا
مکرر زندگانی کا مزا ہو جائے گا حاصل
دم آخر بھی قاصد لے کے گر خط کا جواب آیا
مقدر سے مرے دونوں کے دونوں بے وفا نکلے
نہ عمر بے وفا پلٹی نہ پھر جا کر شباب آیا
وفور شرم سے اس آفتاب حسن کے آگے
جہاں کا ہر حسیں ڈالے ہوئے منہ پر نقاب آیا
دل بیتاب و طاقت کو تسلی کچھ ہوئی حاصل
پیام اس بت کے آنے کا جو وقت اضطراب آیا
عجب پر کیف عالم ہے زمانہ مست ہے انورؔ
کہ ان کے چودھویں من میں نظر رنگ شراب آیا
غزل
وہ پردے سے نکل کر سامنے جب بے حجاب آیا
انور سہارنپوری