تجھ کو تو قوت اظہار زمانے سے ملی
مجھ کو آزادہ روی خون جلانے سے ملی
قریۂ جاں کی طرح ان پہ اداسی تھی محیط
در و دیوار کو رونق ترے آنے سے ملی
یوں تسلی کو تو اک یاد بھی کافی تھی مگر
دل کو تسکین ترے لوٹ کے آنے سے ملی
میں خزاں دیدہ شجر کی طرح گمنام سا تھا
مجھ کو وقعت تری تصویر بنانے سے ملی
شاخ احساس پہ جو پھول کھلے ہیں ان کو
زندگی حسن کا ادراک بڑھانے سے ملی
جاگتی آنکھ سے جو خواب تھا دیکھا انورؔ
اس کی تعبیر مجھے دل کے جلانے سے ملی
غزل
تجھ کو تو قوت اظہار زمانے سے ملی
انور سدید