جلوے دکھائے یار نے اپنی حریم ناز میں
سجدے چمک چمک اٹھے میرے سر نیاز میں
جلوۂ دید میں تری شعلۂ طور تھا نہاں
آگ سی اور لگ گئی میرے دل گداز میں
شوق نے کھیچ لی مرے یار کی جب نقاب رخ
حسن کی روشنی ہوئی جلوہ گہہ مجاز میں
عشق کی بے حجابیاں حسن کی پردہ داریاں
ہونے لگی تلاشیاں ناز میں اور نیاز میں
دل میں لیا اداؤں نے صبر و قرار بھی لیا
لٹ گیا گھر بھرا ہوا جنبش چشم ناز میں
میری نظر کے ملتے ہی ان کی نگاہ جھک گئی
دل کو جواب مل گیا چشم فسوں طراز میں
سحر وہ ہی کشش وہ ہی مستی و بے خودی وہ ہی
تیری نظر سما گئی نرگس نیم باز میں
پاؤں فگار میں تو ہوں دل تو نہیں فگار غم
کوئی صنم نہیں نہ ہو دشت جنوں نواز میں
جلوۂ یار دیکھ کر طور پہ غش ہوئے کلیم
عقل و خرد کا کام کیا محفل حسن و ناز میں
کر لے خدا کی بندگی انورؔ خستہ دل ذرا
بھول نہ اپنے رب کو تو نفس کی حرص و آز میں
غزل
جلوے دکھائے یار نے اپنی حریم ناز میں
انور سہارنپوری