EN हिंदी
اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے | شیح شیری
uski ana ke but ko baDa kar ke dekhte

غزل

اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے

انور سدید

;

اس کی انا کے بت کو بڑا کر کے دیکھتے
مٹی کے آدمی کو خدا کر کے دیکھتے

مایوسیوں میں یوں ہی تمنا اجاڑ دی
اٹھے ہوئے تھے ہاتھ دعا کر کے دیکھتے

دشمن کی چاپ سن کے نہ خاموش بیٹھتے
جو فرض تم پہ تھا وہ ادا کر کے دیکھتے

بے مہریٔ زمانہ کا شکوہ فضول ہے
نکلے تھے گھر سے گر تو صدا کر کے دیکھتے

اس کے بغیر زندگی کتنی فضول ہے
تصویر اس کی دل سے جدا کر کے دیکھتے

گردن جھکا کے چلنے میں کتنا وقار ہے
اپنی انا سے خود کو رہا کر کے دیکھتے

تازہ ہوا میں اڑنے کی خواہش تھی گر سدیدؔ
تم اپنا جسم وقف فضا کر کے دیکھتے