EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر
انہیں کے نام کیا حق نے بندگی کا سفر

انور کیفی




مری قسمت کی کشتی بحر غم میں ڈوب سکتی تھی
تری تقدیر سے شاید مری تقدیر ابھری ہے

انور کیفی




رہ حیات میں شاید ہی وہ مقام آئے
کہ نغمہ ہائے جنوں پر سکوت طاری ہو

انور کیفی




یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے
انسان کا انسان گلا کاٹ رہا ہے

انور کیفی




یہ تو ہو سکتا ہے کہ دونوں کی منزل ایک ہو
پھر بھی اس کے ہم سفر ہونے کی فرمائش نہ کر

انور کیفی




ہوئے اسیر تو پھر عمر بھر رہا نہ ہوئے
ہمارے گرد تعلق کا جال ایسا تھا

انور محمود خالد




اک دھماکے سے نہ پھٹ جائے کہیں میرا وجود
اپنا لاوا آپ باہر پھینکتا رہتا ہوں میں

انور محمود خالد