اک منظر میں پیڑ تھے جن پر چند کبوتر بیٹھے تھے
اک بچے کی لاش بھی تھی جس کے کندھے پر بستا تھا
انجم ترازی
جس دن شہر جلا تھا اس دن دھوپ میں کتنی تیزی تھی
ورنہ اس بستی پر انجمؔ بادل روز برستا تھا
انجم ترازی
سچائی کی خوشبو کی رمق تک نہ تھی ان میں
وہ لوگ جو بازار ہنر کھولے ہوئے تھے
انجم ترازی
یہ علامت کون سی ہے کس سے پوچھوں اے ہوا
پہلی رت میں ہر شجر پر زرد پتا دیکھنا
انصر علی انصر
دل سے نکلی ہوئی ہر آہ کی تاثیر میں آ
مانگ لے رب سے مجھے اور مری تقدیر میں آ
انور کیفی
غریب بھوک کی ٹھوکر سے خون خون ہوئے
کسی امیر کو اب تو لہو کی باس آئے
انور کیفی
ہجر کہتے ہیں کسے یہ مجھے معلوم نہیں
کیا کروں گا میں تجھے اے شب فرقت لے کر
انور کیفی

