EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اک منظر میں پیڑ تھے جن پر چند کبوتر بیٹھے تھے
اک بچے کی لاش بھی تھی جس کے کندھے پر بستا تھا

انجم ترازی




جس دن شہر جلا تھا اس دن دھوپ میں کتنی تیزی تھی
ورنہ اس بستی پر انجمؔ بادل روز برستا تھا

انجم ترازی




سچائی کی خوشبو کی رمق تک نہ تھی ان میں
وہ لوگ جو بازار ہنر کھولے ہوئے تھے

انجم ترازی




یہ علامت کون سی ہے کس سے پوچھوں اے ہوا
پہلی رت میں ہر شجر پر زرد پتا دیکھنا

انصر علی انصر




دل سے نکلی ہوئی ہر آہ کی تاثیر میں آ
مانگ لے رب سے مجھے اور مری تقدیر میں آ

انور کیفی




غریب بھوک کی ٹھوکر سے خون خون ہوئے
کسی امیر کو اب تو لہو کی باس آئے

انور کیفی




ہجر کہتے ہیں کسے یہ مجھے معلوم نہیں
کیا کروں گا میں تجھے اے شب فرقت لے کر

انور کیفی