EN हिंदी
جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر | شیح شیری
jo kar rahe the zamane se gumrahi ka safar

غزل

جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر

انور کیفی

;

جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر
انہیں کے نام کیا حق نے بندگی کا سفر

جہاں پہ لوگ اندھیرے سجائے بیٹھے تھے
وہاں پہ آج بھی جاری ہے روشنی کا سفر

ابھی ہے وقت سنبھل جاؤ اے جہاں والو
کہیں تمام نہ ہو جائے آدمی کا سفر

میں اپنی ذات کا حصہ جسے سمجھتا ہوں
مرے خدا کی ہے بخشش وہ آگہی کا سفر

اسی کا ساتھ خدایا مجھے میسر ہو
محبتوں کا رفاقت کا زندگی کا سفر

یہ ایک کاہکشاں ہی نہیں مری منزل
کہ اس کے بعد بھی باقی ہے روشنی کا سفر