جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر
انہیں کے نام کیا حق نے بندگی کا سفر
جہاں پہ لوگ اندھیرے سجائے بیٹھے تھے
وہاں پہ آج بھی جاری ہے روشنی کا سفر
ابھی ہے وقت سنبھل جاؤ اے جہاں والو
کہیں تمام نہ ہو جائے آدمی کا سفر
میں اپنی ذات کا حصہ جسے سمجھتا ہوں
مرے خدا کی ہے بخشش وہ آگہی کا سفر
اسی کا ساتھ خدایا مجھے میسر ہو
محبتوں کا رفاقت کا زندگی کا سفر
یہ ایک کاہکشاں ہی نہیں مری منزل
کہ اس کے بعد بھی باقی ہے روشنی کا سفر

غزل
جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر
انور کیفی