تخیل میں کبھی جب آپ کی تصویر ابھری ہے
تو کاغذ پر قلم کی نوک سے تحریر ہے
مری قسمت کی کشتی بحر غم میں ڈوب سکتی تھی
تری تقدیر سے شاید مری تقدیر ابھری ہے
تری یادوں کا سورج مستقل گردش میں ہو جیسے
کہیں پر دن نکل آیا کہیں تنویر ابھری ہے
حنا کے پھول ہاتھوں پر سجا کے یہ کہا اس نے
ہتھیلی پر تمہارے پیار کی زنجیر ابھری ہے
ابھی تک نیند کے پنچھی جو پلکوں پر نہیں اترے
مری آنکھوں میں تیرے خواب کی تعبیر ابھری ہے
چلے بھی آؤ انورؔ زندگی کی آخری شب ہے
تمہاری یاد ہے اور حسرت دلگیر ابھری ہے
غزل
تخیل میں کبھی جب آپ کی تصویر ابھری ہے
انور کیفی