خدا بھی میری طرح با کمال ایسا تھا
تراشا اس کو جو میرے خیال ایسا تھا
ہر ایک لمحہ یہی ڈر تھا کھو نہ جائے کہیں
رہا وہ پاس مگر احتمال ایسا تھا
تھا تتلیوں کے پروں سا لطیف اس کا بدن
جو تاب لمس نہ رکھے جمال ایسا تھا
پگھلتی چاندی تھا نصف النہار پر جب تھا
بکھرتا سونا تھا سورج زوال ایسا تھا
جھکائے رکھتا تھا پلکیں وہ باتیں کرتے ہوئے
کہاں کا شوخ تھا خلوت میں حال ایسا تھا
لبوں سے پھوٹ بہا گیت سسکیاں بن کر
کہ لفظ لفظ میں اس کے ملال ایسا تھا
ہوئے اسیر تو پھر عمر بھر رہا نہ ہوئے
ہمارے گرد تعلق کا جال ایسا تھا
غزل
خدا بھی میری طرح با کمال ایسا تھا
انور محمود خالد