ہمارے لہجے میں بہتر ہے انکساری ہو
مگر زباں پہ جو بات آئے سب پہ بھاری ہو
کسی کو ٹھیس نہ پہنچے یہ اپنی کوشش ہے
مگر لگے جو کسی دل پہ ضرب کاری ہو
رہ حیات میں شاید ہی وہ مقام آئے
کہ نغمہ ہائے جنوں پر سکوت طاری ہو
وفا کا ذکر اگر آئے اس کی محفل میں
تو بات جو بھی ہو جیسی ہو بس ہماری ہے
تمام عمر گزاری ہے اس کی خدمت میں
ہمارے نام کا سکہ ادب میں جاری ہو
ترے کرم سے ہمیشہ ہی خوش رہا انورؔ
مرے خدا نہ کبھی لب پہ آہ و زاری ہو
غزل
ہمارے لہجے میں بہتر ہے انکساری ہو
انور کیفی