EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اتنا سناٹا ہے کچھ بولتے ڈر لگتا ہے
سانس لینا بھی دل و جاں پہ گراں ہے اب کے

انور محمود خالد




جو ہو سکا نہ مرا اس کو بھول جاؤں میں
پرائی آگ میں کیوں انگلیاں جلاؤں میں

انور محمود خالد




آنکھوں میں گھل نہ جائیں کہیں ظلمتوں کے رنگ
جس سمت روشنی ہے ادھر دیکھتے رہو

انور معظم




آؤ دیکھیں اہل وفا کی ہوتی ہے توقیر کہاں
کس محفل کا نام ہے مقتل کھنچتی ہے شمشیر کہاں

انور معظم




دھواں اٹھتا نظر آتا ہے ہر سو
ابھی آباد ہے ویرانہ دل کا

انور معظم




دلوں کی آگ بڑھاؤ کہ لوگ کہتے ہیں
چراغ حسن سے روشن جہاں نہیں ہوتا

انور معظم




ایک آواز تو گونجی تھی افق تا بہ افق
کارواں گم ہے کہاں گرد سفر سے پوچھو

انور معظم