EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

زمین ہانپنے لگتی ہے اک جگہ رک کر
میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہوں رقص کرتا ہوں

انجم سلیمی




آرزو کی یہ سزا ہے کہ زمانہ ہے خلاف
ان سے ملنے کی خدا جانے سزا کیا ہوگی

انجم صدیقی




دماغ ان کے تجسس میں جسم گھر میں رہا
میں اپنے گھر ہی میں رہتے ہوئے سفر میں رہا

انجم صدیقی




فصل گل آ گئی ہے اہل جنوں
پھر گریباں کو تار تار کریں

انجم صدیقی




ہجر کی لذتوں کا کیا کہنا
وہ نہ آئیں مری دعا ہے یہ

انجم صدیقی




اک تبسم ہزارہا آنسو
ابتدا وہ تھی انتہا ہے یہ

انجم صدیقی




مری تنہائی کا عالم نہ پوچھو
خیال دوستاں ہے اور میں ہوں

انجم صدیقی