یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے
انسان کا انسان گلا کاٹ رہا ہے
دیکھو نہ ہمیں آج حقارت کہ نظر سے
یارو کبھی اپنا بھی بڑا ٹھاٹ رہا ہے
پہلے بھی میسر نہ تھا مزدور کو چھپر
اب نام پہ دیوار کے اک ٹاٹ رہا ہے
دیکھا ہے جسے آپ نے نفرت کی نظر سے
نفرت کی خلیجوں کو وہی پاٹ رہا ہے
حیران ہوں کیا ہو گیا اس شخص کو انورؔ
جس ڈال پہ بیٹھا ہے اسے کاٹ رہا ہے
غزل
یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے
انور کیفی