EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہمیں بادہ‌ کش درد تمنا
ہمیں پر بند ہے مے خانہ دل کا

انور معظم




ہجوم صبح کی تنہائیوں میں ڈوب گئے
وہ قافلے جو اندھیروں کی انجمن سے چلے

انور معظم




کون رویا پس دیوار چمن آخر شب
کیوں صبا لوٹ گئی راہ گزر سے پوچھو

انور معظم




نہ ملا پر نہ ملا عشق کو انداز جنوں
ہم نے مجنوں کی بھی آشفتہ سری دیکھی ہے

انور معظم




سب دکھاتے ہیں ترا عکس مری آنکھوں میں
ہم زمانے کو اسی طور سے محبوب ہوئے

انور معظم




وقت جھومے کہیں بہکے کہیں تھم جائے کہیں
کھل اٹھیں نقش قدم یوں کوئی دیوانہ چلے

انور معظم




وہ حبیب ہو کہ رہبر وہ رقیب ہو کہ رہزن
جو دیار دل سے گزرے اسے ہم کلام کر لو

انور معظم