خیال میں بھی کبھی جب وہ خوش لباس آئے
مہکتے پھولوں کی خوشبو بھی آس پاس آئے
وفا محبتوں ایثار کی کتابوں میں
ہمارے پیار کے قصوں میں اقتباس آئے
وفا خلوص ادا حسن زلف اور نغمہ
خدا کرے یہی لہجہ غزل کو راس آئے
عروج دار سبھی کو نہیں ہوا حاصل
نہ جانے کتنے زمانے میں حق شناس آئے
ہمارے عزم نے طوفاں کے رخ بدل ڈالے
مخالفت کی ہوا آ سکے تو پاس آئے
غریب بھوک کی ٹھوکر سے خون خون ہوئے
کسی امیر کو اب تو لہو کی باس آئے
غزل
خیال میں بھی کبھی جب وہ خوش لباس آئے
انور کیفی