EN हिंदी
خیال میں بھی کبھی جب وہ خوش لباس آئے | شیح شیری
KHayal mein bhi kabhi jab wo KHush-libas aae

غزل

خیال میں بھی کبھی جب وہ خوش لباس آئے

انور کیفی

;

خیال میں بھی کبھی جب وہ خوش لباس آئے
مہکتے پھولوں کی خوشبو بھی آس پاس آئے

وفا محبتوں ایثار کی کتابوں میں
ہمارے پیار کے قصوں میں اقتباس آئے

وفا خلوص ادا حسن زلف اور نغمہ
خدا کرے یہی لہجہ غزل کو راس آئے

عروج دار سبھی کو نہیں ہوا حاصل
نہ جانے کتنے زمانے میں حق شناس آئے

ہمارے عزم نے طوفاں کے رخ بدل ڈالے
مخالفت کی ہوا آ سکے تو پاس آئے

غریب بھوک کی ٹھوکر سے خون خون ہوئے
کسی امیر کو اب تو لہو کی باس آئے