لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا
وہ میرا دشمن ہو کر بھی میرے گھر میں بستا تھا
باپ مرا تو بچے روٹی کے ٹکڑے کو ترس گئے
ایک تنے سے کتنی شاخوں کا جیون وابستہ تھا
افواہوں کے دھوئیں نے کوشش کی ہے کالک ملنے کی
وہ بکنے کی شے ہوتا تو ہر قیمت پر سستا تھا
اک منظر میں پیڑ تھے جن پر چند کبوتر بیٹھے تھے
اک بچے کی لاش بھی تھی جس کے کندھے پر بستا تھا
جس دن شہر جلا تھا اس دن دھوپ میں کتنی تیزی تھی
ورنہ اس بستی پر انجمؔ بادل روز برستا تھا
غزل
لمحہ لمحہ اپنی زہریلی باتوں سے ڈستا تھا
انجم ترازی