اپنے گھر سے تو چلا تھا میں شکایت لے کر
اس کے گھر پہنچا مگر اس کی محبت لے کر
ایک احساس جنوں مجھ کو لئے جاتا ہے
لوٹ آئے گا نئی پھر کوئی وحشت لے کر
ہجر کہتے ہیں کسے یہ مجھے معلوم نہیں
کیا کروں گا میں تجھے اے شب فرقت لے کر
دل میں رہتا ہے کوئی جذبۂ صادق کی طرح
کوئی آئے تو دکھاوے کی محبت لے کر
میرا گھر ہے کہ فرشتوں کا کوئی مسکن ہے
کیا کروں گا میں کسی اور کی جنت لے کر
غزل
اپنے گھر سے تو چلا تھا میں شکایت لے کر
انور کیفی