EN हिंदी
اپنے گھر سے تو چلا تھا میں شکایت لے کر | شیح شیری
apne ghar se to chala tha main shikayat le kar

غزل

اپنے گھر سے تو چلا تھا میں شکایت لے کر

انور کیفی

;

اپنے گھر سے تو چلا تھا میں شکایت لے کر
اس کے گھر پہنچا مگر اس کی محبت لے کر

ایک احساس جنوں مجھ کو لئے جاتا ہے
لوٹ آئے گا نئی پھر کوئی وحشت لے کر

ہجر کہتے ہیں کسے یہ مجھے معلوم نہیں
کیا کروں گا میں تجھے اے شب فرقت لے کر

دل میں رہتا ہے کوئی جذبۂ صادق کی طرح
کوئی آئے تو دکھاوے کی محبت لے کر

میرا گھر ہے کہ فرشتوں کا کوئی مسکن ہے
کیا کروں گا میں کسی اور کی جنت لے کر