ہر گھر کے مکینوں نے ہی در کھولے ہوئے تھے
سامان بندھا رکھا تھا پر کھولے ہوئے تھے
کیا کرتے جو دو چار قدم تھا لب دریا
جب حوصلے ہی رخت سفر کھولے ہوئے تھے
اک اس کے بچھڑنے کا قلق سب کو ہوا تھا
سر سبز درختوں نے بھی سر کھولے ہوئے تھے
سچائی کی خوشبو کی رمق تک نہ تھی ان میں
وہ لوگ جو بازار ہنر کھولے ہوئے تھے
پہنچا تھا حقیقت کو کوئی ایک ہی انجمؔ
آنکھیں تو کئی اہل نظر کھولے ہوئے تھے

غزل
ہر گھر کے مکینوں نے ہی در کھولے ہوئے تھے
انجم ترازی