دماغ ان کے تجسس میں جسم گھر میں رہا
میں اپنے گھر ہی میں رہتے ہوئے سفر میں رہا
وہ خاک چھاننے والوں کا درد کیا جانے
تمام عمر جو محفوظ اپنے گھر میں رہا
میں ہمکنار کبھی ہو سکا نہ منزل سے
ہمیشہ حلقۂ اخلاق راہبر میں رہا
میں جس کے واسطے بھٹکا کیا زمانے میں
وہ اشک بن کے سدا میری چشم تر میں رہا
مٹا سکا نہ عداوت زمین پر انساں
کبھی خلا میں کبھی انجمؔ و قمر میں رہا
غزل
دماغ ان کے تجسس میں جسم گھر میں رہا
انجم صدیقی