کیا خبر تھی کہ ترے ساتھ یہ دنیا ہوگی
میری جانب مری تقدیر ہی تنہا ہوگی
آرزو کی یہ سزا ہے کہ زمانہ ہے خلاف
ان سے ملنے کی خدا جانے سزا کیا ہوگی
مرمریں جسم کا چرچا لب و رخسار کی بات
میری کوئی تو غزل ان کا سراپا ہوگی
اشک غم پینے میں تکلیف تو ہوتی ہے مگر
سوچتا ہوں کہ محبت تری رسوا ہوگی
نامہ بر بھی ہے طرف دار اب ان کا انجمؔ
میرے حالات کی اب ان کو خبر کیا ہوگی
غزل
کیا خبر تھی کہ ترے ساتھ یہ دنیا ہوگی
انجم صدیقی