ہوا کا تخت بچھاتا ہوں رقص کرتا ہوں
بدن چراغ بناتا ہوں رقص کرتا ہوں
میں بیٹھ جاتا ہوں تکیہ لگا کے باطن میں
خود اپنی بزم سجاتا ہوں رقص کرتا ہوں
زمین ہانپنے لگتی ہے اک جگہ رک کر
میں اس کا ہاتھ بٹاتا ہوں رقص کرتا ہوں
مرا سرور مجھے کھینچتا ہے اپنی طرف
میں اپنے آپ میں آتا ہوں رقص کرتا ہوں
میں جانتا ہوں مجھے کیسے شانت ہونا ہے
کہو تو ہو کے دکھاتا ہوں رقص کرتا ہوں
مری مثال دھواں ہے بجھے چراغوں کا
جب اپنا سوگ مناتا ہوں رقص کرتا ہوں
عجیب لہر سی انجمؔ مرے خمیر میں ہے
جسے وجود میں لاتا ہوں رقص کرتا ہوں
غزل
ہوا کا تخت بچھاتا ہوں رقص کرتا ہوں
انجم سلیمی