باوفا ہوں مری خطا ہے یہ
جی رہا ہوں مری سزا ہے یہ
اک تبسم ہزارہا آنسو
ابتدا وہ تھی انتہا ہے یہ
غم بہت محترم ہے میرے لئے
کیوں نہ ہو آپ کی عطا ہے یہ
ہجر کی لذتوں کا کیا کہنا
وہ نہ آئیں مری دعا ہے یہ
دل مرا توڑ دیجئے لیکن
سوچئے کس کا آئنہ ہے یہ
غزل
باوفا ہوں مری خطا ہے یہ
انجم صدیقی