EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ستم تو یہ ہے کہ فوج ستم میں بھی انجمؔ
بس اپنے لوگ ہی دیکھوں جدھر نگاہ کروں

انجم خلیق




سو میری پیاس کا دونوں طرف علاج نہیں
ادھر ہے ایک سمندر ادھر ہے ایک سراب

انجم خلیق




تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی
کہ تن ڈھکنے پہ بھی جسموں کی عریانی نہیں جاتی

انجم خلیق




ان سنگ زنوں میں کوئی اپنا بھی تھا شاید
جو ڈھیر سے یہ قیمتی پتھر نکل آئے

انجم خلیق




اسی شرر کو جو اک عہد یاس نے بخشا
کبھی دیا کبھی جگنو کبھی ستارہ کریں

انجم خلیق




وحشت ہجر بھی تنہائی بھی میں بھی انجمؔ
جب اکٹھے ہوئے سب ایک غزل اور کہی

انجم خلیق




یہ کون ہے کہ جس کو ابھارے ہوئے ہے موج
وہ شخص کون تھا جو تہہ آب رہ گیا

انجم خلیق