EN हिंदी
ہر شعر سے میرے ترا پیکر نکل آئے | شیح شیری
har sher se mere tera paikar nikal aae

غزل

ہر شعر سے میرے ترا پیکر نکل آئے

انجم خلیق

;

ہر شعر سے میرے ترا پیکر نکل آئے
منظر کو ہٹا کر پس منظر نکل آئے

یہ کون نکل آیا یہاں سیر چمن کو
شاخوں سے مہکتے ہوئے زیور نکل آئے

اس بار بلاوے میں کسی ماہ جبیں کے
وہ زور طلب تھا کہ مرے پر نکل آئے

یہ وصل سکندر کے مقدر میں نہیں تھا
ہم کیسے مقدر کے سکندر نکل آئے

شب آئی تو ظلمت کی مذمت میں ستارے
دیوار فلک توڑ کے باہر نکل آئے

اس بات کا آندھی کو گماں بھی نہیں ہوگا
لو ایک تھی فانوس بہتر نکل آئے

الہام کا موسم اتر آتا ہے زمیں پر
بستی میں اگر ایک سخنور نکل آئے

ان سنگ زنوں میں کوئی اپنا بھی تھا شاید
جو ڈھیر سے یہ قیمتی پتھر نکل آئے

پندار ہنر ذوق نظر شدت اخلاص
دنیا کے مقابل مرے لشکر نکل آئے

کچھ سوچ کے امید وفا باندھتے انجمؔ
چشمے کی جگہ کیسے سمندر نکل آئے