کتنا ڈھونڈا اسے جب ایک غزل اور کہی
جب ملا ہی نہیں تب ایک غزل اور کہی
ایک امید ملاقات میں لکھی سر شام
اور پھر آخر شب ایک غزل اور کہی
اک غزل لکھی تو غم کوئی پرانا جاگا
پھر اسی غم کے سبب ایک غزل اور کہی
اس غزل میں کسی بے درد کا نام آتا تھا
سو پئے بزم طرب ایک غزل اور کہی
جانتے بوجھتے اک مصرعۂ تر کی قیمت
دل بیداد طلب ایک غزل اور کہی
دل کی دھڑکن کو ہی پیرایۂ اظہار کیا
سل چکے جب مرے لب ایک غزل اور کہی
دفعتاً خود سے ملاقات کا احساس ہوا
مدتوں بعد جو اب ایک غزل اور کہی
وحشت ہجر بھی تنہائی بھی میں بھی انجمؔ
جب اکٹھے ہوئے سب ایک غزل اور کہی

غزل
کتنا ڈھونڈا اسے جب ایک غزل اور کہی
انجم خلیق