پلکوں تک آ کے اشک کا سیلاب رہ گیا
دریا درون حلقۂ گرداب رہ گیا
یہ کون ہے کہ جس کو ابھارے ہوئے ہے موج
وہ شخص کون تھا جو تہہ آب رہ گیا
نخل انا میں زور نمو کس غضب کا تھا
یہ پیڑ تو خزاں میں بھی شاداب رہ گیا
کیا شہر پر کھلی ہی نہیں آیت خلوص
کیا ایک میں ہی واقف آداب رہ گیا
کچھ ذکر یار جس میں تھا کچھ ذکر وصل یار
تدوین زندگی میں وہی باب رہ گیا
جو شے یہاں کی تھی وہ یہیں چھوڑ دی مگر
آنکھوں کے بیچ ایک ترا خواب رہ گیا
دیکھا جو پھر سے جانب دریا رواں مجھے
بل کھا کے اپنے آپ میں گرداب رہ گیا
انجمؔ تری زمین ابھی کتنی دور ہے
کوسوں پرے تو قریۂ مہتاب رہ گیا

غزل
پلکوں تک آ کے اشک کا سیلاب رہ گیا
انجم خلیق