بدل چکے ہیں سب اگلی روایتوں کے نصاب
جو تھے ثواب و گنہ ہو گئے گناہ و ثواب
نمو کے باب میں وہ بے بسی کا عالم ہے
بہار مانگ رہی ہے خزاں رتوں سے گلاب
بدل کے جام بھی ہم تو رہے خسارے میں
ہمارے پاس لہو تھا تمہارے پاس شراب
مرے کہے کو امانت سمجھنا موج ہوا
میں آنے والے زمانوں سے کر رہا ہوں خطاب
سو میری پیاس کا دونوں طرف علاج نہیں
ادھر ہے ایک سمندر ادھر ہے ایک سراب
خود آگہی کا سلیقہ سکھا گیا انجمؔ
مرے خلاف مرے دوستوں کا استصواب
غزل
بدل چکے ہیں سب اگلی روایتوں کے نصاب
انجم خلیق