EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یہ کون نکل آیا یہاں سیر چمن کو
شاخوں سے مہکتے ہوئے زیور نکل آئے

انجم خلیق




زباں بندی کے موسم میں گلی کوچوں کی مت پوچھو
پرندوں کے چہکنے سے شجر آباد ہوتے ہیں

انجم خلیق




زمیں کی گود میں اتنا سکون تھا انجمؔ
کہ جو گیا وہ سفر کی تھکان بھول گیا

انجم خلیق




ذرا سی میں نے ترجیحات کی ترتیب بدلی تھی
کہ آپس میں الجھ کر رہ گئے دنیا و دیں میرے

انجم خلیق




زرفشاں ہے مری زرخیز زمینوں کا بدن
ذرہ ذرہ مرے پنجاب کا پارس نکلا

انجم خلیق




اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا
یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

انجم خیالی




آنکھ جھپکیں تو اتنے عرصے میں
جانے کتنے برس گزر جائیں

انجم خیالی