ستم گروں سے ڈروں چپ رہوں نباہ کروں
خدا وہ وقت نہ لائے میں یہ گناہ کروں
مری نظر میں انا کے شرر سلامت ہیں
انہیں بجھاؤں تو تعظیم کم نگاہ کروں
مری زباں کو سلیقہ نہیں گزارش کا
میں اپنے حق سے زیادہ نہ کوئی چاہ کروں
پہاڑ میرے تہور کا استعارہ ہے
میں پستیوں سے بھلا کیسے رسم و راہ کروں
مصاف زیست میں مجھ کو بس آگہی دے دو
حرام ہے جو طلب پھر کوئی سپاہ کروں
کسی کو خوف سلاسل کسی کو حرص کرم
میں اپنے حق میں خدایا کسے گواہ کروں
ستم تو یہ ہے کہ فوج ستم میں بھی انجمؔ
بس اپنے لوگ ہی دیکھوں جدھر نگاہ کروں

غزل
ستم گروں سے ڈروں چپ رہوں نباہ کروں
انجم خلیق