ہم اپنے ذوق سفر کو سفر ستارا کریں
نہ کوئی زائچہ کھینچیں نہ استخارہ کریں
اسی سے لفظ بنے ماں بھی ایک ہے جن میں
تو کیسے حرف کی بے حرمتی گوارہ کریں
اسی شرر کو جو اک عہد یاس نے بخشا
کبھی دیا کبھی جگنو کبھی ستارہ کریں
شعور شعر نے وہ آنکھ کھول دی دل میں
کہ اب تو ہم پس امکان بھی نظارہ کریں
فراق رت میں بھی کچھ لذتیں وصال کی ہیں
خیال ہی میں ترے خال و خد ابھارا کریں
الٰہی کھول دے ہم پر در مدینۂ علم
علی علی اسی امید پر پکارا کریں
عصا نہیں نہ سہی ہم فقیر لوگ مگر
ہوں موج میں تو تلاطم کو ہی کنارہ کریں
خدا کا شکر ہے سب زر پسند جاہ طلب
ہماری صحبت بے فیض سے کنارا کریں
ملے جو وقت تو انجمؔ بصورت دیوان
مرتب اپنی ریاضت کا گوشوارہ کریں
غزل
ہم اپنے ذوق سفر کو سفر ستارا کریں
انجم خلیق