EN हिंदी
تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی | شیح شیری
tahayyur hai bala ka ye pareshani nahin jati

غزل

تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی

انجم خلیق

;

تحیر ہے بلا کا یہ پریشانی نہیں جاتی
کہ تن ڈھکنے پہ بھی جسموں کی عریانی نہیں جاتی

یہاں عہد حکومت عجز کا کس طور آئے گا
کہ تاج و تخت کی فطرت سے سلطانی نہیں جاتی

بجھے سورج پہ بھی آنگن مرا روشن ہی رہتا ہے
دہکتے ہوں اگر جذبے تو تابانی نہیں جاتی

مقدر کر لے اپنی سی ہم اپنی کر گزرتے ہیں
مقدر سے اب ایسے ہار بھی مانی نہیں جاتی

اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے
سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی

یہ کیسے کھردرے موسم گزار آیا ہوں میں انجمؔ
کہ خود مجھ سے ہی میری شکل پہچانی نہیں جاتی