EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

آیا تھا پچھلی رات دبے پاؤں میرے گھر
پازیب کی رگوں میں جھنک چھوڑ کر گیا

انجم عرفانی




ادا ہوا نہ کبھی مجھ سے ایک سجدۂ شکر
میں کس زباں سے کروں گا شکایتیں تیری

انجم عرفانی




بات کچھ ہوگی یقیناً جو یہ ہوتے ہیں نثار
ہم بھی اک روز کسی شمع پہ جل کر دیکھیں

انجم عرفانی




چراغ چاند شفق شام پھول جھیل صبا
چرائیں سب نے ہی کچھ کچھ شباہتیں تیری

انجم عرفانی




درد دل بانٹتا آیا ہے زمانے کو جو اب تک انجمؔ
کچھ ہوا یوں کہ وہی درد سے دو چار ہوا چاہتا ہے

انجم عرفانی




ہم فنا نصیبوں کو اور کچھ نہیں آتا
خوں شراب کر لینا جسم جام کر لینا

انجم عرفانی




ہر چہرہ ہر رنگ میں آنے لگتا ہے
پیش نظر یادوں کے البم ہوتے ہیں

انجم عرفانی