EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

یک بیک جاں سے گزرنا تو ہے آساں انجمؔ
قطرہ قطرہ کئی قسطوں میں پگھل کر دیکھیں

انجم عرفانی




اگر آتا ہوں ساحل پر تو آندھی گھیر لیتی ہے
سمندر میں اترتا ہوں تو طغیانی نہیں جاتی

انجم خلیق




اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے
تو یاس کے موسم میں بھی امید کا فن سیکھ

انجم خلیق




اذیتوں کی بھی اپنی ہی ایک لذت ہے
میں شہر شہر پھروں نیکیاں تلاش کروں

انجم خلیق




بہت ثابت قدم نکلیں گئے وقتوں کی تہذیبیں
کہ اب ان کے حوالوں سے کھنڈر آباد ہوتے ہیں

انجم خلیق




بس اے نگار زیست یقیں آ گیا ہمیں
یہ تیری بے رخی یہ تامل نہ جائے گا

انجم خلیق




بیتے ہوئے لمحات کو پہچان میں رکھنا
مرجھائے ہوئے پھول بھی گلدان میں رکھنا

انجم خلیق