جو نہ ہوں کچھ تشریح طلب کم ہوتے ہیں
اس کے اشارے سارے مبہم ہوتے ہیں
ہر چہرہ ہر رنگ میں آنے لگتا ہے
پیش نظر یادوں کے البم ہوتے ہیں
ایسے میں آ جاتی ہے اپنی ہی یاد
آئینہ ہوتا ہے اور ہم ہوتے ہیں
بھولنے لگتے ہیں جگنو بھی اپنی راہ
پلکوں پر جب قطرۂ شبنم ہوتے ہیں
موج بلا جب سر سے گزرنے لگتی ہے
مظلوموں کے ہاتھ ہی پرچم ہوتے ہیں
مٹھی سے پھسلے ہی جاتے ہیں ہر پھل
وصل کے لمحے تار ریشم ہوتے ہیں
کیا جانے جو دیوار و در کا ہے اسیر
راہوں میں کیا کیا پیچ و خم ہوتے ہیں
کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد
زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں
انجمؔ جلنے لگتے ہیں ہر سمت دیئے
درد کے حملے دل پر پیہم ہوتے ہیں
غزل
جو نہ ہوں کچھ تشریح طلب کم ہوتے ہیں
انجم عرفانی