دھوپ آتی نہیں رخ اپنا بدل کر دیکھیں
چڑھتے سورج کی طرف ہم بھی تو چل کر دیکھیں
بات کچھ ہوگی یقیناً جو یہ ہوتے ہیں نثار
ہم بھی اک روز کسی شمع پہ جل کر دیکھیں
صاحب جبہ و دستار سے کہہ دے کوئی
اس بلندی پہ وہ دیکھیں تو سنبھل کر دیکھیں
کیا عجب ہے کہ یہ مٹھی میں ہماری آ جائے
آسماں کی طرف اک بار اچھل کر دیکھیں
داغ دامن پہ کسی کے نہ کوئی ہاتھ ہی تر
کیوں نہ چہرے پہ لہو اپنا ہی مل کر دیکھیں
کس طرح سمت مخالف میں سفر کرتے ہیں ہم
بہتے دھارے سے کبھی آپ نکل کر دیکھیں
خاک میں مل کے فنا ہوں گے جو موتی ہیں یہاں
جب بھی جی چاہے یہ آنکھوں سے ابل کر دیکھیں
یک بیک جاں سے گزرنا تو ہے آساں انجمؔ
قطرہ قطرہ کئی قسطوں میں پگھل کر دیکھیں
غزل
دھوپ آتی نہیں رخ اپنا بدل کر دیکھیں
انجم عرفانی