لہجے کا رس ہنسی کی دھنک چھوڑ کر گیا
وہ جاتے جاتے دل میں کسک چھوڑ کر گیا
موج ہوائے گل سا وہ گزرا تھا ایک بار
پھر بھی مشام جاں میں مہک چھوڑ کر گیا
آیا تھا پچھلی رات دبے پاؤں میرے گھر
پازیب کی رگوں میں جھنک چھوڑ کر گیا
لرزہ گرفت لمس کی لذت سے بار بار
بانہوں میں شاخ گل کی لچک چھوڑ کر گیا
آیا تھا شہر گل سے بلاوا مرے لیے
زنداں میں بیڑیوں کی چھنک چھوڑ کر گیا
تھا دیکھنا کچھ اپنا طلسم ہنر اسے
باغ بہشت و حور و ملک چھوڑ کر گیا
آوارہ کو بہ کو یہ اسے ڈھونڈھتی پھرے
پائے ہوا میں کیسی سنک چھوڑ کر گیا
ہنستے تھے زخم اور بھی کھا کھا کے ضرب سنگ
راہوں میں پھول دور تلک چھوڑ کر گیا
ہاتھوں میں دے کے کھینچ لیں ریشم کلائیاں
کمرے میں چوڑیوں کی کھنک چھوڑ کر گیا
آنکھیں نہ اس کی بار ندامت سے اٹھ سکیں
زخموں پہ میرے اور نمک چھوڑ کر گیا
پلکوں پہ جگنوؤں کا بسیرا ہے وقت شام
انجمؔ میں پانیوں میں چمک چھوڑ کر گیا
غزل
لہجے کا رس ہنسی کی دھنک چھوڑ کر گیا
انجم عرفانی