EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

اس نے دیکھا ہے سر بزم ستم گر کی طرح
پھول پھینکا بھی مری سمت تو پتھر کی طرح

انجم عرفانی




کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد
زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں

انجم عرفانی




کیا عجب ہے کہ یہ مٹھی میں ہماری آ جائے
آسماں کی طرف اک بار اچھل کر دیکھیں

انجم عرفانی




لہجے کا رس ہنسی کی دھنک چھوڑ کر گیا
وہ جاتے جاتے دل میں کسک چھوڑ کر گیا

انجم عرفانی




لمحہ لمحہ میں ہوا جاتا ہوں ریزہ ریزہ
وجہ کچھ مجھ سے نہ پوچھو مرے رب سے پوچھو

انجم عرفانی




لوٹ کر یقیناً میں ایک روز آؤں گا
پلکوں پہ چراغوں کا اہتمام کر لینا

انجم عرفانی




مری نظر میں آ گیا ہے جب سے اک صحیفہ رخ
کشش رہی نہ دل میں اب کسی کتاب کے لیے

انجم عرفانی