مٹھی سے پھسلے ہی جاتے ہیں ہر پھل
وصل کے لمحے تار ریشم ہوتے ہیں
انجم عرفانی
پلکوں پہ جگنوؤں کا بسیرا ہے وقت شام
انجمؔ میں پانیوں میں چمک چھوڑ کر گیا
انجم عرفانی
سفر میں ہر قدم رہ رہ کے یہ تکلیف ہی دیتے
بہر صورت ہمیں ان آبلوں کو پھوڑ دینا تھا
انجم عرفانی
سر راہ مل کے بچھڑ گئے تھا بس ایک پل کا وہ حادثہ
مرے صحن دل میں مقیم ہے وہی ایک لمحہ عذاب کا
انجم عرفانی
تیشہ بکف کو آئینہ گر کہہ دیا گیا
جو عیب تھا اسے بھی ہنر کہہ دیا گیا
انجم عرفانی
ادھر سچ بولنے گھر سے کوئی دیوانہ نکلے گا
ادھر مقتل میں استقبال کی تیاریاں ہوں گی
انجم عرفانی
یاد ہے قصۂ غم کا مجھے ہر لفظ ابھی
حال جس درد کا جس رنج کا جب سے پوچھو
انجم عرفانی

